چارلس ڈکنز کا تذکرہ جن کے قلم کی طاقت اور اسلوب کی جادوگری مشہور ہے! –

یہ چارلس ڈکنز کے قلم کی خوبی تھی کہ اُس کی کہانیوں کو کلاسیک کا درجہ حاصل ہوا اور وہ اپنے سماج کا آئینہ قرار پائیں۔ اسی وصف کی بناء پر چارلس ڈکنز کو برطانوی معاشرے کا نبّاض بھی کہا گیا ہے۔

ڈکنز اُن ناول نگاروں میں‌ شامل ہیں جو اپنے قلم کی طاقت اور تخلیقی صلاحیتوں سے کام لے کر سماجی برائیوں، اپنے عہد میں ریاست کے نظام کی خامیوں اور مسائل کو اجاگر کرتے رہے اور فرسودہ نظام کو بدلنے میں کردار ادا کیا۔ چارلس ڈکنز کے ناولوں اولیور ٹوئسٹ، ڈیوڈ کاپر فیلڈ، اے ٹیل آف ٹو سٹیز کو برطانوی ادب میں کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ اس نے بچّوں کے لیے کئی دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں لکھیں جو دنیا بھر میں مشہور ہیں اور مزے کی بات یہ کہ ان کہانیوں کو بچے ہی نہیں ہر عمر کے لوگ شوق سے پڑھتے ہیں۔ یہی ڈکنز کے اسلوب کا کمال ہے۔

1870ء میں آج ہی کے دن چارلس ڈکنز چل بسے تھے۔ وہ ایک ناول نگار، مدیر، صحافی اور مصنّف تھا اور ایک صاحبِ بصیرت شخصیت کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ڈکنز نے اپنی نگارشات میں وکٹورین عہد کی مکمل تصویر پیش کی ہے جو بعد میں معاشرتی سطح پر تبدیلی لانے میں مددگار ثابت ہوئی۔

7 فروری 1812ء کو چارلس ڈکنز نے انگلینڈ کے جنوبی ساحل پر واقع پورٹس ماؤتھ کے ایک گھر میں آنکھ کھولی۔ وہ اپنے والدین کی آٹھ اولادوں میں‌ سے دوسری اولاد تھی۔ اس کے والد جان ڈکنز بحریہ میں ایک کلرک تھے جب کہ والدہ الزبیتھ بیرو شعبۂ تدریس سے منسلک تھیں۔ 1822ء میں ڈکنز کا خاندان لندن کے ایک نچلے طبقہ کے رہائشیوں کے محلّے میں‌ منتقل ہوگیا تھا۔ اس گھرانے کے مالی حالات وقت کے ساتھ خراب ہوچکے تھے۔ اس کے والد مقروض تھے اور انھیں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں انھیں جیل جانا پڑا۔ بدحالی، تنگ دستی اور والد کی قید دیکھتے ہوئے چارلس ڈکنز بڑے ہوئے۔ ان حالات نے انھیں غور و فکر کے عادی بنا دیا تھا۔ جب والد کو جیل ہوئی تو چارلس ڈکنز کی عمر 12 سال تھی۔ ان کے جیل جانے کے بعد ڈکنز کو دریائے ٹیمز کے ساتھ قائم جوتے رنگنے والی فیکٹری میں نوکری کرنا پڑی اور اس کے لیے اسکول چھوڑنا پڑ گیا۔ فیکٹری میں کام کرتے ہوئے چارلس ڈکنز نے جبر اور استحصال کی کئی شکلیں دیکھیں اور ان کا شکار بھی ہوئے۔ ان کی زندگی کے یہ ادوار اور ان کے تجربے ان کی تخلیق ’’اولیور ٹوئسٹ‘‘ اور مزدور بچّوں کے جذبات ’’ڈیوڈ کاپر فیلڈ ‘‘ میں اور امارت و غربت کی کشمکش ’’اے کرسمن کیرول‘‘ میں نظر آتی ہے۔ بعد میں‌ چارلس کے والد نے خاندانی جائیداد بیچ کر اپنے سارے قرض ادا کر دیے اور چارلس کو اسکول بھیجنا شروع کر دیا۔ لیکن 15 سال کے ہوئے تو حالات کی ستم ظریفی نے ایک بار پھر اسکول سے نکال کر ایک دفتر میں آفس بوائے کی حیثیت سے کام پر مجبور کردیا۔ لیکن یہی ملازمت ان کے کیریئر کا اہم موڑ ثابت ہوئی اور یہیں سے چارلس کے لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

ادبی دنیا میں چارلس ڈکنز کی اہمیت اور مرتبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی نگارشات کا ترجمہ تقریباً ہر زبان میں ہوچکا ہے اور انیسویں صدی کا بااثر ادیب گردانا جاتا ہے۔ چارلس ڈکنز نے 170 برس پہلے جن کرداروں سے ہمیں متعارف کروایا تھا وہ آج بھی معاشروں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

کلیئر ٹامالین نے چارلس ڈکنز کی سوانح عمری تحریر کی جس میں اس نے لکھا کہ چارلس ڈکنز کی معاشرتی تصویر کشی آج بھی ان کی سوچ کے عین مطابق ہے، وہی امیر غریب میں پایا جانے والا فرق، بدعنوان سرکاری ملازم، سیاسی ریشہ دوانیاں، اور اسی نوع کی دیگر سماجی برائیاں آج کے دور میں بھی عام ہیں۔ چارلس ڈکنز نے اسی کی نشان دہی کی اور اپنی تحریروں میں اچھے بُرے لوگوں اور ان کے سچ جھوٹ کے ساتھ اُس تضاد کو نمایاں کیا جو معاشرے کو برباد کر رہا تھا۔

رچرڈ ڈبلیو لونگ نے ایک طویل مضمون ’’انگلینڈ اور چارلس ڈکنز‘‘ کے عنوان سے لکھا اور ڈکنز کے ناولوں میں انگلینڈ اور لوگوں کے مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے’’ڈاکٹر خود فیکٹری میں کام کرتا رہا، کلرکی کی، عدالت میں رپورٹر رہا، اخبار میں کام کیا، ہوٹلوں میں مزدوری کی، اسے چائلڈ لیبر اور بچوں کو درپیش مسائل اور زیادتیوں کا ذاتی تجربہ تھا چنانچہ اس نے اپنے ناولوں میں کھل کر اس کے خلاف آواز اٹھائی اور (Reform Laws) کے لیے راستہ ہموار کیا‘‘۔

Comments





Source link

اپنا تبصرہ لکھیں