اردو ادب کے ‘مجنوں’ کا تذکرہ –

مجنوں گورکھپوری اردو کے ممتاز نقاد، شاعر، مترجم اور افسانہ نگار تھے جنھوں نے اپنے دور میں ترقی پسند ادب کو تنقیدی سطح پر نظریاتی بنیادیں فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ آج مجنوں کی برسی ہے۔

مجنوں کے تمام ادبی حوالوں اور شناختوں پر ان کی تنقیدی شناخت حاوی رہی۔ انہوں نے بہت تسلسل کے ساتھ اپنے عہد کے ادبی و تنقیدی مسائل پر لکھا اور اپنی فکر و نکتہ رسی کی بدولت اردو ادب کے لیے گراں قدر سرمایہ یادگار چھوڑا۔ مجنوں‌ گورکھپوری 4 جون 1988ء کو ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوگئے تھے۔

مجنوں کا اصل نام احمد صدیق تھا۔ ان کے والد محمد فاروق دیوانہ بھی ادیب اور مشہور شاعر تھے۔ مجنوں نے مشرقی یوپی کے ضلع بستی تحصیل خلیل آباد میں واقع پلدہ المعروف ملکی جوت میں 10 مئی 1904 کو آنکھ کھولی۔ ان کا خاندان اعلٰی تعلیم یافتہ اور زمیں دار تھا۔ والد محمد فاروق دیوانہ نے اپنے بیٹے احمد صدیق کا داخلہ تعلیم کے لیے سینٹ اینڈریوز اسکول میں کرایا۔ 1921ء میں میٹرک کے بعد 1927ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے انگریزی، اور ایک سال بعد کلکتہ یونیورسٹی سے مجنوں نے اردو میں ایم اے کیا۔ 1936ء میں درس و تدریس سے وابستہ ہوئے۔ ان کی شادی 14 اکتوبر 1926ء میں ہوئی۔ تقسیمِ ہند کے بعد مجنوں بھارت میں مقیم رہے، لیکن مئی 1968ء میں ہجرت کی اور پاکستان کے شہر کراچی چلے آئے۔ یہاں انھیں کراچی یونیورسٹی میں بہ حیثیت اعزازی پروفیسر تعینات کر دیا گیا۔

مجنوں گورکھپوری نے ادب کو زندگی سے ہم آہنگ کرنے‘ زندگی کی عکاسی کرنے اور اسے سماجی شعور و آگہی کا ذریعہ بنانے کے لیے نہایت قابلِ قدر مضامین لکھے۔ ان کی تنقیدی کتاب ’’ادب اور زندگی‘‘ نے بلاشبہ اردو تنقید میں فکر کا ایک نیا در کھولا۔ 1936ء میں جب ترقی پسند تحریک کی اردو ادب میں داغ بیل پڑی تو مجنوں صاحب کا اس میں بھی بڑا حصہ تھا۔ علی سردار جعفری اپنی کتاب ’’ترقی پسند ادب‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’تحریک کے ابتدائی زمانے میں مجنوں گورکھ پوری نے اپنے تنقیدی مضامین سے تحریک کے اغراض و مقاصد کو پھیلانے میں بڑا کام کیا اور نئے اصولِ تنقید بنانے میں بڑی مدد کی۔ انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ادب زندگی کا ترجمان ہوتا ہے اور نقاد بھی زندگی کے ساتھ سائے کی طرح وابستہ ہے۔ اس لیے زندگی کی تبدیلی کے ساتھ ادب بھی بدلتا ہے۔‘‘ ان کی تنقیدی کتب میں نقوش و افکار، نکاتِ مجنوں، تنقیدی حاشیے، تاریخِ جمالیات، ادب اور زندگی، شعر و غزل سرِفہرست ہیں۔ مجنوں نے افسانے بھی لکھے۔ ان کی نگارشات خواب و خیال، مجنوں کے افسانے، سرنوشت کے نام سے کتابی شکل میں‌ شایع ہوچکی ہیں۔

اردو میں تنقید نگاری کے ساتھ مجنوں‌ گورکھپوری نے انگریزی ادب سے تراجم بھی کیے اور شیکسپیئر، ٹالسٹائی، بائرن، برنارڈ شا اور جان ملٹن کی تخلیقات کو اردو کے قالب میں ڈھالا۔

ادیب اور نقاد مجنوں گورکھپوری کو کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

Comments





Source link

اپنا تبصرہ لکھیں