حلم وبُرد باری:اسلامی معاشرے کی شناخت

تحریر : ڈاکٹرعائض القرنی، ترجمہ: مولانا محمد عثمان منیب
اللہ تعالیٰ نے آ پ ﷺ ہی کیلئے یہ آ یت نازل فرمائی۔
’’اور غصہ پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کر دینے والے ہیں
اور اللہ نیکو کاروں کو پسند کرتا ہے۔‘‘(آ ل عمران134-3)

بعض مواقع پر لوگوں کے ناپسندیدہ طرز عمل کو برداشت کرنے کی تاکیدکی گئی ہےنبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے۔’’طاقتور وہ نہیں جو بہت زیادہ پچھاڑ دے، یعنی کشتی میں حریف پر غالب آ جائے۔ مضبوط اور طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت خود پر قابو پا لے‘‘(صحیح البخاری، الادب حدیث6114)
بلاشبہ آپ ﷺ کی سیرت مبارک ہر شعبہ زندگی میں ہماری رہنمائی کرتی ہے اور انسان ہر موڑ پر آپﷺ کی سنت کی پیروی کرنے کا پابند ہے اور ان میں سے ایک موقع بعض لوگوں کے ناپسندیدہ طرز عمل کو برداشت کرنا بھی ہے۔ ہمیں سیکھنا چاہیے کہ آپ ﷺ نے اپنے حلم کے ساتھ کیسے ان سے درگزر کیا، انہیں اللہ کے حضور توبہ کی مہلت دی، انہیں اللہ کی رحمت اور اس کی معافی کی امید دلائی اور ان پر واپسی کا دروازہ بند نہیں کیا، جب سید نا حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے مشرکین مکہ کو خط لکھ کر رسول اکرم ﷺ کے بارے میں بتایا کہ آپ ﷺ مکہ پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس کیلئے آپؐ نے لشکر تیار کر لیا ہے تو اس پر وحی نازل ہوئی اور نبی اکرم ﷺ کو اس خط کے بارے میں بتایا گیا۔ آپ ﷺ نے سید نا حاطب رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا ۔اس موقع پر حضرت عمر فاروقؓ بھی موجود تھے۔آ پ ﷺ نے بڑے اطمینان سے پوچھا، حاطب! یہ کیا ہے؟ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! مجھے سزا دینے میں جلدی نہ کریں بلکہ میرا عذر سن لیں۔ میرا قریش سے کوئی نسبی رشتہ نہیں بلکہ میں باہر سے آکر ان سے ملا ہوں۔ آپ کے ہمراہ جو مہاجرین ہیں، ان سب کی مکہ مکرمہ میں رشتہ داریاں ہیں جن کی وجہ سے قریش، ان کے اہل و عیال اور مال و اسباب کی حفاظت کریں گے۔ میں نے سوچا کہ جب میرا ان سے کوئی نسبی رشتہ نہیں تو میں ان پر کوئی ایسا احسان کروں جس کی وجہ سے وہ میرے قرابت داروں کی حفاظت کریں۔ میں نے یہ کام کفر کی بنا پر نہیں کیا، نہ میں دین اسلام سے پھرا ہوں اور نہ اسلام کے بعد کفر پر راضی ہوا ہوں۔ یہ سن کر رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ اس نے تمہیں سچ سچ بتا دیا ہے‘‘۔

سید نا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں، میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’چونکہ یہ شخص غزوۂ بدر میں حاضر تھا۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو دیکھ کر فرمایا ہے کہ تم جو چاہو عمل کرو، یقیناً میں تمہیں بخش چکا ہوں‘‘(صحیح البخاری، الجہاد و السیر، حدیث3007)
رسول اکرم ﷺ کا حلم اور بردباری ملاحظہ کریں کہ آپﷺ نے کس طرح ان کی قدرو منزلت اور اسلام میں سبقت کو پہچانااور در گزر فرمایا! اس منظر پر غور کرنے سے آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں اور دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں۔آپﷺ نے بتایا ہے کہ انسان کی عزت و شرف، حلم و بردباری اور غصہ پی جانے میں ہے نہ کہ سزا دینے اور انتقام لینے میں۔ آپ ﷺ ایک نہایت مضبوط اور مؤثر بات ارشاد فرمایا کرتے تھے۔’’طاقتور وہ نہیں جو بہت زیادہ پچھاڑ دے، یعنی کشتی میں حریف پر غالب آ جائے۔ مضبوط اور طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت خود پر قابو پا لے‘‘(صحیح البخاری، الادب حدیث6114)
شاندار اور اعلیٰ انسانیت کے یہی معنی ہیں نہ کہ دوسروں کو زیر کرنے، اذیت دینے اور نقصان پہنچانے کے منصوبے بنانا۔
رسول اکرم ﷺ نے حلم و بردباری اور عفو و در گزر کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے اور اسے حلیم اور برد بار لوگوں کے سروں کا تاج قرار دیا ہے، اسی لیے آپﷺ نے فرمایا:
’’ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے پر دھوکے سے قیمتیں نہ بڑھائو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو، تم میں سے کوئی دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرے اور اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جائو۔ مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے بے یارو مدد گار چھوڑتا ہے اور نہ اس کی تحقیر کرتا ہے‘‘(صحیح مسلم البرو الصلۃ، حدیث2564)۔
آپﷺ کا نہایت عمدہ اور خوبصورت فرمان ہے:’’عفوو در گزر کرنے سے اللہ بندے کی عزت ہی بڑھاتا ہے‘‘۔(صحیح مسلم، البرو الصلۃ، حدیث2588)
بلاشبہ ان معانی کو پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ یہ یقین و اعتقاد رکھتے ہوئے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ارشاد نبوی ﷺپر عمل کرنا دنیا و آخرت میں باعث نجات ہے۔ یہ ایسی عظیم شریعت ہے جس کی روشنی میں اللہ کی عبادت کی جاتی ہے۔ یہ تاریخی خبریں نہیں جنہیں محض ذہنی سکون و اطمینان کیلئے پڑھا جاتا ہے۔
آپ ﷺ تبوک کیلئے نکلے تو منافقین اس غزوے میں پیچھے رہ گئے اور شامل نہ ہوئے۔ جب آپﷺ واپس تشریف لائے تو انہوں نے جھوٹے عذر پیش کئے۔ اس پر آپؐ نے ان کے عذر قبول کئے اور ان کی بات کو ظاہر پر محمول کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریمﷺ سے فرمایا:
’’(اے نبی)! اللہ نے آپ کو معاف کر دیا۔ آپ نے ان (منافقین) کو اجازت کیوں دی؟(آپ اجازت نہ دیتے) یہاں تک کہ آپ پر سچے لوگ ظاہر ہو جاتے اور آپ جھوٹوں کو جان لیتے۔(التوبۃ43:9)۔
یہاں ایک خوبصورت نکتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اپنے رسول ﷺ سے محبت اور اللہ کے ہاں آپ کی قدر و منزلت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے عتاب سے پہلے عفو و در گزر کا ذکر فرمایا۔ یہ آپﷺ کی اپنے رب کے ہاں اعلیٰ شان کی دلیل ہے۔ مخلوق میں آپ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزیز، محبوب اور عزت دار ہیں۔گزشتہ واقعہ سے آپ ﷺ کے حلم کی وسعت اور عفو و در گزر کی عظمت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آپﷺ نے منافقوں کی سازشوں ،سیاہ کاریوں، غداریوں اور باطنی کفر کو جاننے کے باوجود ان کے عذر قبول کئے، انہیں برداشت کیا اور ان سے در گزر فرمایا۔
سیدنا حضرت عمرفاروق ؓ فرماتے ہیں جب عبداللہ بن ابی ابن سلول مرا تو رسول اللہ ﷺ کو اس کی نماز جنازہ پڑھانے کی دعوت دی گئی، جب رسول اللہ ﷺ نماز کیلئے کھڑے ہوئے تو میں آپؐ کی طرف تیزی سے دوڑ پڑا اور عرض کیا: اللہ کے رسول !(ﷺ) کیا آپ عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھیں گے، حالانکہ اس نے فلاں فلاں روز ایسی ایسی بات کی تھی؟ میں اس کی باتیں شمار کرنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ نے مسکرا کر فرمایا: ’’عمر! تم یہاں سے ایک طرف ہٹ جائو‘‘ جب میں زیادہ اصرار کرنے لگا تو آپﷺ نے فرمایا:’’ مجھے اختیار دیا گیا ہے، لہٰذا میں نے استغفار کرنا اختیار کیا ہے۔ اگر مجھے علم ہو کہ میرے ستر سے زیادہ مرتبہ استغفار کرنے سے اللہ اسے معاف کر دے گا تو میں ستر سے زیادہ مرتبہ اس کیلئے استغفار کر لوں گا‘‘۔

تصور کریں کہ آپ کے سامنے ایسے شخص کا جنازہ لایا جائے جو آپ کا سب سے بڑا دشمن ہو، جس نے زندگی بھر آپ کے خلاف سازشیں کی ہوں،، رائے عامہ کو آپ کے خلاف کرنے کی بھرپور کوشش کی ہو، آپکو قتل کرنے اور نقصان پہنچانے کے منصوبے بناتا رہا ہو، اس نے ایذا رسانی کا ہر طریقہ اختیار کیا ہو اور اس سب کچھ کے باوجود آپ عفو و در گزر، برد باری اور نظر اندازی و معافی والا معاملہ کرکے اس کیلئے استغفار کریں اور اللہ سے رحم کی دعا کریں تو کتنے عمدہ اخلاق اور اعلیٰ ظرف کی بات ہو گی! میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اعلیٰ اخلاق صرف ایک ہی انسان کے ہو سکتے ہیں جن کا اسم گرامی حضرت محمد بن عبداللہ ﷺ ہے۔
اس بدو اور دیہاتی کا واقعہ دیکھ لیں جو مدد طلب کرنے کیلئے آپ ﷺ کے پاس آیا۔ آپﷺ نے ایک موٹے کناروں والی نجرانی چادر اوڑھ رکھی تھی۔ اس بدو نے پیچھے سے وہ چادر پکڑ کر کھینچی حتیٰ کہ آپﷺ کی گردن مبارک پر نشان پڑ گیا مگر آپﷺ نے نہ صرف در گزر کیا بلکہ اسے مال دینے کا حکم صادر فرمایا۔ سید نا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
’’ میں ایک دفعہ نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ جا رہا تھا جبکہ آپ نے نجران کی تیار کی ہوئی چوڑے حاشیے والی چادر پہن رکھی تھی۔ اتنے میں ایک اعرابی نے آپؐ کو گھیر لیا اور زور سے چادر کو جھٹکا دیا، میں نے نبی اکرم ﷺ کے شانے کو دیکھا جس پر چادر کو زور سے کھینچنے کی بنا پر نشان پڑ گیا تھا۔ پھر اس نے کہا کہ اللہ کا جو مال آپ کے پاس ہے، اس میں سے کچھ مجھے دینے کا حکم دیجئے۔ آپ ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور ، پھر آپ نے مسکرا کر اسے کچھ دینے کا حکم دیا۔(صحیح البخاری فرض الخمس، حدیث 3149)
عرابی نے تین گستاخیاں کیں-1نبی اکرم ﷺ کی چادر کو کھینچا،-2سخت رویہ اپنایا،-3بدتمیزی سے بات کی۔ آپ ﷺ نے اسکے جواب میں تین نوازشیں کیں۔-1اس پر توجہ دی،-2اس کی طرف دیکھ کر مسکرائے،-3کچھ دینے کا حکم دیا۔
سبحان اللہ! یہی آپﷺ کا منہج و طریقہ تھا جیسا کہ آپؐ کے رب نے آپ سے فرمایا:
’’ آپ ہر برائی کو سب سے اچھے طریقے کے ساتھ ٹال دیا کریں تو آپ دیکھیں گے یکا یک وہ شخص کہ آپ کے اور اس کے درمیان دشمن ہے۔(ایسا ہو جائے گا) جیسے گرم جوش جگری دوست ہو‘‘۔(حٰمٓ، السجدۃ 34:41)
آپﷺ کے حلم اور بردباری کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ آپ دینی احکام سے ناآشنا نو مسلم دیہاتیوں کے ساتھ لطف و کرم والا معاملہ کرتے۔
سید نا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نجد کی طرف جہاد کیلئے روانہ ہوئے۔ جب رسول اللہ ﷺ لوٹے تو یہ بھی آپ کے ہمراہ لوٹے۔ راستے میں قیلو لے کا وقت ایک ایسی وادی میں ہوا جس میں بکثرت خار دار(ببول کے) درخت تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس وادی میں پڑائو کیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی درختوں کا سایہ حاصل کرنے کیلئے پوری وادی میں پھیل گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک درخت کے نیچے پڑائو کیا اور اپنی تلوار اس درخت سے لٹکا دی۔ ہم لوگ وہاں گہری نیند سو گئے۔ اس دوران میں ہم نے رسول اللہ ﷺ کی آواز سنی کہ آپؐ ہمیں بلا رہے ہیں۔ دیکھا تو ایک دیہاتی آپ کے پاس تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ میں سویا ہوا تھا تو اس نے اچانک مجھ پر میری تلوار سونت لی۔ میں جب بیدار ہوا تو ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں تھی۔‘‘ اس نے مجھ سے کہا:’’ تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ میں نے تین مرتبہ کہا، ’’اللہ‘‘ اور آپؐ نے اسے کوئی سزا نہ دی اور وہ بیٹھ گیا۔(صحیح البخاری الجہاد و السیر، حدیث2010)۔اور یہ بھی مروی ہے کہ یہ آ دمی اپنی قوم کے پاس گیا اور مسلمان ہو گیا۔اور پھر یہ اپنی قوم کے اسلام لانے کا باعث بنا۔(الاصابۃ)۔
یہ ہیں آ پ ﷺ کی خوبیاں اور شمائل و اخلاق۔اللہ تعالیٰ نے آ پ ﷺ ہی پر تو یہ آ یت نازل فرمائی۔
’’اور غصہ پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کر دینے والے ہیں ۔اور اللہ نیکو کاروں کو پسند کرتا ہے۔‘‘(آ ل عمران134-3)
اس لئے اگر ہم چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر مقام پر ہماری مدد فرمائے توحلم و بردباری کی عادت اپنائیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں